ro en |
سفیان ثوری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خط لکھ کر عمر بن عبدالعزیز سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے ( جواب میں ) لکھا:
”امابعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے ، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرنے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لیے کافی ہو جانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں ، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے ، اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لیے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہو گی ۔
پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو ، اس لیے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے ، ( اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے ، کیا کیا غلطیاں ، لغزشیں ، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں ( ابن کثیر کی روایت میں «من قد علم» کا لفظ نہیں ہے ) لہٰذا تم اپنے آپ کو اسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم ( سلف ) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے ، اس لیے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے ، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے ، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی ، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے ، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے ، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق و برتر تھے-
انہوں نے جتنا کچھ بیان کر دیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی و کافی ہے ، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی ، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہو گئے ، اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے ، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرار کے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے ، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے ، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے ، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے ، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہو جانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں ۔ پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا ، اور اس کو مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ، اس پر یقین کر کے ، اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے ، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو ، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آ چکی ہو ، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو ، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے ، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا ، اسی سے اسے سیکھا ۔
اور اگر تم یہ کہو : اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی ؟ اور ایسا کیوں کہا ( جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں ) ؟ تو ( جان لو ) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل و تفسیر کا علم تھا جس سے تم ناواقف ہو ، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے : ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہو گا ، جو اللہ نے چاہا ، وہی ہوا ، جو نہیں چاہا ، نہیں ہوا ۔ اور ہم تو اپنے لیے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے-“
پھر اس کے بعد لوگوں نے (اچھے کام کی طرف) دلچسپی دکھائی اور (برے کاموں سے) ڈرتے رہے.
سنن ابو داؤد، کتاب السنہ، حدیث:٤٦١٢- اس کی سند صحیح مقطوع ہے.
”امابعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے ، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرنے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لیے کافی ہو جانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں ، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے ، اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لیے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہو گی ۔
پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو ، اس لیے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے ، ( اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے ، کیا کیا غلطیاں ، لغزشیں ، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں ( ابن کثیر کی روایت میں «من قد علم» کا لفظ نہیں ہے ) لہٰذا تم اپنے آپ کو اسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم ( سلف ) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے ، اس لیے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے ، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے ، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی ، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے ، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے ، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق و برتر تھے-
انہوں نے جتنا کچھ بیان کر دیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی و کافی ہے ، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی ، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہو گئے ، اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے ، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرار کے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے ، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے ، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے ، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے ، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہو جانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں ۔ پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا ، اور اس کو مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ، اس پر یقین کر کے ، اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے ، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو ، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آ چکی ہو ، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو ، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے ، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا ، اسی سے اسے سیکھا ۔
اور اگر تم یہ کہو : اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی ؟ اور ایسا کیوں کہا ( جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں ) ؟ تو ( جان لو ) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل و تفسیر کا علم تھا جس سے تم ناواقف ہو ، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے : ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہو گا ، جو اللہ نے چاہا ، وہی ہوا ، جو نہیں چاہا ، نہیں ہوا ۔ اور ہم تو اپنے لیے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے-“
پھر اس کے بعد لوگوں نے (اچھے کام کی طرف) دلچسپی دکھائی اور (برے کاموں سے) ڈرتے رہے.
سنن ابو داؤد، کتاب السنہ، حدیث:٤٦١٢- اس کی سند صحیح مقطوع ہے.
•٠•●●•٠•
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے. آمی
Post a Comment