مستقل فتوي كميٹي ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ايك ساٹھ سالہ عورت كئي برس تك حيض كےاحكام سے جاہل تھي، اور عام لوگوں سے سن ركھا تھا كہ روزوں كي قضاء نہيں اس گمان كي بنا پر اس نے روزوں كي قضاء نہيں كي اس كا حكم كيا ہے؟
كميٹي كاجواب تھا:
'اسے اللہ تعالي كي جانب رجوع كرتے ہوئے توبہ واستغفار كرني چاہيے كہ اس نے اہل علم سے يہ مسئلہ نہيں پوچھا، اس كےساتھ ساتھ اس پران ايام كي قضاء بھي ہے جواس نےماہواري كي بنا پر روزےنہيں ركھے وہ ظن غالب كے اعتبار سے ان ايام كي قضاء ميں روزے ركھے اوراگر اس ميں استطاعت ہو تو ہر دن كےبدلے ميں ايك مسكين كو كھانا بھي دے جو كہ نصف صاع گندم يا كھجور يا چاول وغيرہ جو اس كےملك ميں كھايا جاتا ہے ، ليكن اگركھانا دينے كي استطاعت نہيں ركھتي تويہ اس سےساقط ہوجائےگا اور صرف روزوں كي قضاء ہي كافي ہوجائےگي'. اھ
ديكھيں: فتاوي الجنۃ الدائمہ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 151 )
واللہ اعلم-
•٠•●●•٠•
Post a Comment